شانِ خدا بھی آپ ‘ محبوبِ خدا بھی آپ ہیں

شانِ خدا بھی آپ ‘ محبوبِ خدا بھی آپ ہیں

تجسیم حق بھی آپ ہیں اور حق نُما بھی آپ ہیں


روزِ ابد تک آپ ہیں سالارِ جیشِ انبیاء

روزِ ازل سے مرشدِ اہلِ صِفا بھی آپ ہیں


قدرت کی ہر تخلیق کا ہیں آپ واحد مُدّعا

حسنِ زمیں بھی آپ ہیں نورِ سما بھی آپ ہیں


اپنے رفیقوں کے لیے پتھر بھی ڈھوئے آپ نے

اور دشمنوں کے حق میں مصروفِ دُعا بھی آپ ہیں


اِسلام کے حلقے میں جو اوہام کا بیمار ہو

اس کی دوا بھی آپ ہیں اس کی شِفا بھی آپ ہیں


ہر دائرہ آواز کا ‘ لفظِ محمدؐ بن گیا

میرے لیے تو قبلہء صوت و صدا بھی آپ ہیں


میں فلسفوں کی دھوپ میں جلتا رہا ہوں عمر بھر

اِن علم کے صحراؤں میں موجِ صبا بھی آپ ہیں


ظلماتِ این و آں میں ہوں ‘ میں کب سے سرگرمِ سفر

اور اس سفر میں ‘ میری منزل کا پتہ بھی آپ ہیں


اس محفلِ عُشّاق کا ہر فرد ثروت مند ہے

ہر شخص کے اپنے ہیں ‘ اور پھر بے بہا بھی آپ ہیں


میرا ‘ ندیمؔ‘ ایماں ہے یہ ‘ ایماں کی اک میزاں ہے یہ

بے اِنتہا بھی آپ ‘ لیکن ‘ اِنتہا بھی آپ ہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

زمیں میلی نہیں ہوتی ضمن میلا نہیں ہوتا

پڑھو صلِّ علیٰ نبینا صلِّ علیٰ محمدٍؐ

آنکھیں سوال ہیں

میرے حسین تجھے سلام

اِک نعت لکھی ہے ہم نے بھی

ہم بھی ان کے دیار جائیں گے

اے شہنشاہِ مدینہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد

ظلمتِ شب کو تو نے اجالا دیا