خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل ‘ جسے اندیشئہ زوال نہ ہو


یہاں جو پھول کِھلے ‘ وہ کِھلا رہے صدیوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو


یہاں جو سبزہ اُگے ‘ وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز ‘ کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو


گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی ‘ روئیدگی محال نہ ہو


خدا کرے --- کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو


ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اَوج کمال

کوئی مَلُول نہ ہو ‘ کوئی خستہ حال نہ ہو


خدا کرے --- کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو ‘ زندگی وبال نہ ہو


خدا کرے --- کہ مِری ارض پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

خرد کا اصل یہی ہے کہ ہے رجیم و لعین

خُدایا میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

یارب ہمیں بلندیٔ فکر و خیال دے

مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے

یارب ‘ مرے وطن کو اِک ایسی بہار دے

سحر کے وقت

ب کے برسات عجب طور

بو لنے دو

اے خدا ‘ دِل تو آئنہ سا تھا