آنکھیں سوال ہیں

قدموں سے پُھوٹتی ہے چمک ماہتاب کی

دہلیز پر کھڑا ہُوں رسا لتمآب کی


ہے چہرہ رسُول نگاہوں کے سامنے

تفسیر پڑھ رہا ہُوں مَیں اُمّ الکِتاب کی


اُس والی ِ بہار کا دامن ہے ہاتھ میں

مٹّی ہے جس کے سامنے خُو شبُو گُلاب کی


مُجھ بے نوا فقیر کی آنکھیں سوال ہیں

خیرات مانگتی ہے سماعت جواب کی


گھر جس کو پانیوں پہ بنانے سکھائے تھے

رُلتی ہے ساحلوں پہ وُہ اُمّت جناب کی


روضے کی جالیوں سے جکڑ دیجیے مجھے

زنجیر کاٹ دیجے مِرے اضطراب کی


سو یا ہُوا ہوں آپ کے قدموں کی خاک پر

تعبیر بھی ہو کاش یہی میرے خواب کی


جذبِ جمال ہو کے بھی چمکی نہیں نظر

مُجھ کو صلا حیّت ہو عطا اِکتساب کی


سانّسیں ہیں پُل صراط مظفّرؔ کے واسطے

دُنیا بھی اِک مثال ہے روزِ حساب کی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

ہر بات اِک صحیفہ تھی اُمّی رسُولؐ کی

وہ ہے رسُول میرا

دِل اُسے چاہے زباں اس کی ثنا خوانی کرے

سَرورِ کون و مکاں ختمِ رسل شاہِ زمن

تِرا سایا دیکھوں

مقصُودِ کائِنات

پروردگارِ عَالَم

پیغمبرِ دیں ، ہادی کُل، رحمتِ یَزداں

تو خُود پیام جلی تھا پیامبر تو نہ تھا

خَیر کی بھِیک