تِرا سایا دیکھوں

تُجھ کو آنکھوں میں لِیے جب مَیں یہ دُنیا دیکھوں

ہر سَحَر میں تِرے ماتھے کا اُجالا دیکھوں


آئِنہ بن کے جو ساری بشریّت آئے

کوئی تصویر کوئی عکس نہ تجھ سا دیکھوں


میری بِینائیوں کے پَر سے نِکل آتے ہیں

جب خلاؤں میں تِرا نقشِ کفِ پا دیکھوں


تیرے قدموں سے لپٹنے میں ہے معراج مِری

تیری دہلیز پہ جبریل کو بیٹھا دیکھوں


کیا سمائے مِرے لفظوں میں بڑائی تیری

صَف میں نبیوں کے تِرا چاہنے والا دیکھوں


شوق ہوتا ہے جو بیتاب تلاوت کے لیے

رحلِ دل پر تِرے جلووں کا صحیفہ دیکھوں


تیری انگشتِ تصّور سے بھی چشمے پھُوٹیں

تیرے صحرا میں کِسی کو بھی نہ پیاسا دیکھوں


آنکھ والوں کو نظر آئی نہ پرچھائیں تِری

مَیں تو دیورِ ابد تک تِرا سایا دیکھوں


ڈال دیں مُجھ پہ مظفرؔ جو وُہ کالی کملی

رُوح کے غار سے خُورشید نِکلتا دیکھوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

ہر منفعت ِ دنیا سے ہوئے ہم مستغنی اللہ غنی

پیار سے دیکھتا ہے خدا بھی اُسے جو بشر مصطفے کی نظر میں رہے

سر رشتۂ کُن فکاں محمدؐ

اُن کا نقشِ قدم چاہیے

راہِ نبیؐ میں ذوقِ وفا میرے ساتھ ہے

اے صاحبِ معراجﷺ

پھیلا ہوا ہے دہر میں مدحت کا سلسلہ

رحمت کا ہے نُزول لَقَد جَاءَکُم رَسُول

اُن کے در سے جو غلامی کی سند تک پہنچے

دل ٹھکانہ میرے حضورﷺ کا ہے