پیار سے دیکھتا ہے خدا بھی اُسے جو بشر مصطفے کی نظر میں رہے
قصر شاہی سے اُس کا ہے گھر محترم کیف ذکر نبی جسکے گھر میں رہے
زندگی تو مدینے کی ہے زندگی بندگی بھی مدینے کی ہے بندگی
بندگی کا مزہ لوٹنا ہو اگر آدمی مصطفیٰ کے نگر میں رہے
یاد ان کی رہے ہمسفر ہر قدم روز افزوں رہیں اُنکے لطف وکرم
روز ہوتی رہے حاضری حرم شوق پیہم حرم کے سفر میں رہے
رونق دو جہاں تیری گرد سفر تیرے تلووں کا دھوون ہیں شمس و قمر
چومتی ہے انہیں آج بھی ہر نظر جتنے ذرے تیری رہگزر میں رہے
اُس سے اُلجھیں گے آکر نہ طوفاں کبھی میرا ایمان ہے تجربہ بھی یہی
جس سفینے کے ہیں نا خدا مصطفے غیر ممکن ہے یہ وہ بھنور میں رہے
جب سنا آئیں گے آپ وقت سحر دل میں جشن چراغاں رہا رات بھر
اپنی آنکھیں بچھا کر سر رہگزر رات بھر انتظار سحر میں رہے
اور کوئی نہیں ہے مری جستجو موت کے بعد بھی یہی آرزو
رُوح تن سے نکل کر نیازی مری حلقہ ذکر خیر البشر میں رہے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی