مرحبا! مقدَّر پھر آج مسکرایا ہے

مرحبا! مقدَّر پھر آج مسکرایا ہے

پھر مجھے مدینے میں شاہ نے بلایا ہے


خوب مسجدِ نبوی کا حسین ہے منظر

سبزسبز گنبد پر کیسا نور چھایا ہے


میری گندی آنکھوں کو ان نجس نگاہوں کو

شکریہ مدینے کا باغ پھر دکھایا ہے


مجھ سا پاپی اور بدکار اور آپ کا دربار!

بِالیقین مجھ پر بھی رَحمتوں کا سایہ ہے


یانبی! شِفا دیدو ازپئے رضا دے دو

خوب زور، عِصیاں کے رَوگ نے دکھایا ہے


جس کو سب نے ٹھکرایا اور دل کو تڑپایا

صَدقے جاؤں اس کو بھی آپ نے نبھایا ہے


نفرتوں کے دَلدَل میں دشمنوں کے چُنگل میں

جب کبھی پھنسا ہوں میں آپ نے بچایا ہے


عادتیں گناہوں کی ہائے! کم نہیں ہوتیں

آہ! نفس و شیطاں نے زور سے دبایا ہے


واری جاؤں میں تم پر آبھی جاؤ اب سرور !

کوئی دم کاہوں مِہماں دم لبوں پر آیا ہے


حق نے کردیا مالک تم کو سب خزانوں کا

تم نے ہی کِھلایا ہے تم نے ہی پِلایا ہے


کیوں فِدا نہ ہو عطارؔ آپ پر شہِ ابرار

اِس کو اپنے دامن میں آپ نے چھپایا ہے


آپ کے کرم سے یہ دھوم ہے قیامت میں

دیکھو دیکھو عطّارؔ اب کتنا خوش خوش آیا ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اج پاک محمد آیا اے اج پاک محمد آیا اے

آخِری روزے ہیں دل غمناک مُضطَر جان ہے

تیرا اِک اِک نقشِ طیّب عرش پر محفوظ ہے

ہم کو رحمٰن سے جو ملا، اس محمدؐ کی کیا بات ہے

اِرم کے در کی سجاوٹ ہوا ہے آپ کا نام

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں

عکسِ حق ہے رُخِ مبینِ حبیبؐ

سلام گُلشن توحید کی بہار سلام

تاجدار عربیا من موہنیا