جسے خالقِ عالمیں نے پکارا سرا جاً منیرا

جسے خالقِ عالمیں نے پکارا سرا جاً منیرا

وہ حُسنِ ہویدا ، وہ نورِ سراپا ، سراجاً منیرا


ہدایت کا اک جگمگاتا سویرا جو ہمراہ لایا

جگر جس نے ظلماتِ دوراں کا چیرا سراجاً منیرا


وہ جس کے قدم سے بہاروں کے چشمے زمانے میں پھوٹے

ہوا جس کے دم سے جہاں میں اجالا سراجًا منیرا


جو خاتمِ بھی ہے اور خَاتَم بھی ہے انبیا ورسل کا

وہ یٰسیں وہ طہٰ ، وہ روشن منارہ سراجاً منیرا


وہی صاحبِ قولِ فیصل جو ٹھہرا ہے برہانِ محکم

سدا جس کے جلوے ہیں تازہ بتازہ سراجاً منیرا


معلّمِ کتاب اور حکمت کا تائب وہ ہاوی، وہ منذر

وہ احمدؐ ، محمدؐ، بشیراَ نذیرا، سراجاً منیرا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

بَدہ دستِ یقیں اے دِل بدستِ شاہِ جیلانی

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

آنکھوں کا تارا نامِ محمد

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا

طواف اُن کا کرے بزرگی

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

وردِ لب اک نغمۂ حمدِ خدا رہنے دیا

بخت والوں کو مدینے میں ٹھکانہ مل گیا