بخت والوں کو مدینے میں ٹھکانہ مل گیا

بخت والوں کو مدینے میں ٹھکانہ مل گیا

مغفرت کا دیکھئے کیسا بہانہ مل گیا


کیوں نہ یارو جھوم کر پڑھتے رہیں اُنؐ پر درود

ہم گنہگاروں کو کیا اچھا ترانہ مل گیا


اُنؐ کے اسمِ پاک سے وابستگی جن کو ملی

جنتِ فردوس میں اُن کو ٹھکانہ مل گیا


جب بھی عشقِ مصطفی ؐ میں ڈوب کر نعتیں سنیں

دل کی دھڑکن کو سرورِ جاودانہ مل گیا


ایک لمحے کی خوشی طیبہ میں حاصل کیا ہوئی

یوں لگا جیسے مجھے سارا زمانہ مل گیا


میرے آقاؐ کی گدائی کا شرف جس کو ملا

رحمتِ ربّ کا اُسے فیضیؔ خزانہ مل گیا

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دیگر کلام

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

کیسا اُمّت کا تھا یہ غم آقاؐ

نبیؐ کی نعت جہاں تک سنائی دے

شہر مکہ بھی شہر کیسا تھا

پیکرِ عدل و کرم میرے حضورؐ

پاک محمدؐ نام ہے پیارا پاکیزہ ہر بات

عالَمِ شش جہات میں ایسا بھلا کرم کہاں؟

ذرّے سے بھی کم تر ہوں مگر کتنا بڑا ہوں

جمالِ مصطفویؐ کا کوئی جواب نہیں

پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں