شہر مکہ بھی شہر کیسا تھا
کچھ انوکھا سا اور یکتا تھا
دُور صحرا میں اِک الائو تھا
اہلِ باطل کا یہ پڑائو تھا
کوئی پانی نہ کوئی دانہ تھا
جلتا صحرا فقط ٹھکانہ تھا
ہر طرف ظلم کے بسیرے تھے
روح میں تیرتے اندھیرے تھے
جا بہ جا ظلمتوں کا پھیرا تھا
کتنا سفّاک ہر سویرا تھا
کتنا ارزاں تھا آدمی کا لہو
قتل و غارت کا راج تھا ہر سُو
گھر خدا کا بتوں کا مسکن تھا
خوں میں ڈوبا ہر ایک آنگن تھا
بربرّیت کے ناگ پلتے تھے
کاہنوں کے ہی وار چلتے تھے
بس یہی اُن کی پارسائی تھی
بُت پرستی تھی بے حیائی تھی
پھر خدا نے کرم یہ فرمایا
ابرِ رحمت کا کر دیا سایا
اپنے گھر کو حرم بنانا تھا
ذکرِ توحید سے سجانا تھا
اپنے پیارے حبیبؐ کو بھیجا
رحمتوں کے نقیب کو بھیجا
آپؐ آئے تو زندگی سنوری
زندگی کیا کہ بندگی سنوری
کیا کرم کی نظر یہ فرمائی
پوری اُمّت کی بات بَن آئی
رحمتوں کا نزول ہونے لگا
کفر کا دِل ملول ہونے لگا
تیِرہ بختوں میں آفتاب کھِلے
قریہ قریہ حسیں گلاب کھِلے
شاعر کا نام :- اسلم فیضی
کتاب کا نام :- سحابِ رحمت