علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا
غبارِ راہ کو چھو کر بہار تُو نے کیا
ہر آدمی کو تَشخّص ملا ترے دَم سے
جو بے شمار تھے ‘ ان کو شمار تُو نے کیا
اٹھا کے قعرِ مذلّت سے ابنِ آدم کو
وقار تُو نے دیا ‘ باوقار تُو نے کیا
کوئی نہ جن کی سنے ‘ اُن کی بات تُو نے سنی
ملا نہ پیار جنہیں ‘ اُن سے پیار تُو نے کیا
اگر غریب کو بخشے حقوق لامحدود
تو قصرِ شاہ کو بھی بے حصار تُو نے کیا
جنہیں گماں تھے بہت ‘ اپنی سرفرازی کے
یہ یک نگاہ اُنہیں ‘ خاکسار تُو نے کیا
دل و دماغ کے سب چاند ہو چکے تھے غروب
یہ وہ اُفق ہے ‘ جسے تاب دار تُو نے کیا
جمالِ قول و عمل ہو کہ حسنِ صدق و صفا
خدا نے جو بھی دیا ‘ پائیدار تُو نے کیا
جب اُن کے نطق کو پہنچی ‘ ترے یقیں کی آنچ
جو بے زباں تھے ‘ انہیں شعلہ بار تُو نے کیا
یہ لطف غالبؔ و اقبالؔ تک نہیں محدود
ندیمؔ کو بھی صداقت نگار تُو نے کیا
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال