قطرہ مانگے جو کوئی

قطرہ مانگے جو کوئی ‘ تُو اُسے دَریا دے دے

مجھے کو کچھ اور نہ دے ‘ اپنی تمنّا دے دے


میں تو تجھ سے فقط اِک نقشِ کفِ پا چاہوں

تو جو چاہے تو مجھے جنتِ ماویٰ دےدے


وہ جو آسودگی چاہیں ‘ اُنہیں آسودہ کر

بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے


میں اِس اعزاز کے لائق تو نہیں ہوں ‘ لیکن

مجھ کو ہمسائیگئ گنبدِ خضرا دے دے


یوں تو جب چاہوں ‘ میں تیرا رُخِ زیبا دیکھوں

عرض یہ ہے کہ مجھے اِذنِ تماشا دے دے


وہ بھی دیکھیں پَسِ ہر حرف تیری جلوہ گری

سب کو تُو میری طرح دیدہ ء بینا دے دے


غم تو اِس دَور کی تقدیر میں لِکھّے ہیں ‘ مگر

مجھ کو ہر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے


تب سمیٹوں میں ترے ابرِ کرم کے موتی

میرے دامن کو جو تو وسعتِ صحرا دے دے


تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے

قدم اُٹھیں تو زمانہ مجھے رَستا دے دے


جب بھی تھک جائے محبت کی مسافت میں ندیم ؔ

تب ترا حسن بڑھے اور سنبھالا دے دے

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ‘یہ شیدا تیرا

خُلد مری ‘ صرف اُس کی تمنا

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

رَاہ گُم کردہ مسافر کا نگہبان تُو ہے

رُوح و بد ن میں ‘ قول و عمل میں ‘ کتنے جمیل ہیں آپ

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

میں نے مانا کہ وہ میرا ہے تو

عالم کی ابتداء بھی ہے تُو

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں