مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں

مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں

تو پھر حیات سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں


اُمڈ رہی ہیں اگر آندھیاں ‘ تو کیا غم ہے

کہ میرا خیمہء ایمان بے طناب نہیں


ترا گدا ہوں ‘ اور اِس اَنجمن میں بیٹھا ہوں

جس اَنجمن میں سَلا طیں بھی باریاب نہیں


ترے کمالِ مساوات کی قسم ہے مجھے

کہ تیرے دیں سے بڑا کوئی انقلاب نہیں


صدی صدی کی تورایخِ آدَمِیَّت میں

تری مثال نہیں ہے ‘ ترا جواب نہیں


ندیمؔ پر ترے احساں ہیں اِس قدر ‘ جن کا

کوئی شمار نہیں ہے ‘ کوئی حساب نہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

قطرہ مانگے جو کوئی

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

میں نے مانا کہ وہ میرا ہے تو

عالم کی ابتداء بھی ہے تُو

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

میں ! کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں

کتنا سادہ بھی ہے ‘ سچا بھی ہے

اِمتیازات مِٹانے کے لیے آپؐ آئے

مرے حضور ؐ! سلام و درُود کے ہمراہ

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا