مرے حضور ؐ! سلام و درُود کے ہمراہ

مرے حضور ؐ! سلام و درُود کے ہمراہ

کئی گِلے بھی کروں گا کہ درد مند ہوں مَیں


جدید تر ہے تمہارا نظامِ زیست مگر

قدیم آنچ پہ اِک دَانہء سپند ہوں مَیں


مدارِ اَمن و اماں ہے تفا وَتِ زر و خاک

اِس اِمتیاز سے ہر چند کچھ بلند ہوں مَیں


مرے حضورؐ! میں سچ بولتا رہوں ‘ لیکن

مری زبان پہ رکھتے ہیں لوگ اَنگارے


میں ظلمتوں میں تجلی کی جب دہائی دوں

تو میرے سر پہ برستے ہیں آہنی تارے


تمہارے نام کا تنہا جنہیں سہارا تھا

تمہارے نام پہ لُٹنے لگے ہیں بے چارے


مرے حضورؐ ! اِسی نُور کے سہارے پر

میں تیرگی میں اُلجھ کر بھی مسکراتا ہوں


شہنشہوں کے قصیدے لکھوں تو کیسے لکھوں

رَواں لبوں پہ تمہارا ہی نام پاتا ہوں


مجھے خبر ہے ‘ تمہاری نگاہ ہے مجھ پر

اسی لیے تو مَیں شعلوں میں تَیر جاتا ہوں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

اے شہنشاہِ مدینہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

گُلوں سے دل کی زمینوں کو بھردیا تو نے

یامصطَفٰے عطا ہو اب اِذن، حاضِری کا

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

اب کرم یامصطَفیٰ فرمائیے

بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

پرچم کشا جمال ہے شہرِ حبیبؐ میں

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم