عالم کی ابتداء بھی ہے تُو

عالم کی ابتداء بھی ہے تُو ‘ انتہا بھی تُو

سب کچھ ہے تُو ‘ مگر ہے کچھ اِس کے سوا بھی تُو


تُو اک بشر بھی اور خدا کا حبیب بھی

نورِ خدا بھی تو ہے ‘ خدا کا پتا بھی تو


کندہ درِ ازل پہ ترا اسمِ پاک تھا

قصرِ ابد میں گونجنے والی صدا بھی تُو


فردا و حال و ماضئ انساں یہی تو ہے

تُو ہی تُو ہوگا ‘ تُو ہی تو ہے اور تھا بھی تُو


تُو صرف ایک ذات ہے یا پوری کائنات

دل میں بھی تُو ہی تُو ہے ‘ مگر جا بجا بھی تُو


یوں تو مرے ضمیر کا مسند نشیں بھی ہے

لیکن ہے شش جہات میں جلوہ نما بھی تُو


تُو میرا آسماں بھی ‘ مری کہکشاں بھی ہے

میری قبا بھی تُو ‘ مرا چاکِ قبا بھی تُو


تُو مِیرِ کارواں بھی ہے ‘ سمتِ سفر بھی ہے

میرا امام بھی ‘ مرا قبلہ نما بھی تُو


صرف ایک ترا نام ہے وردِ زباں مدام

میری دعا بھی تُو ہے ‘ مرا مدعا بھی تُو


جو مَیل دِل پہ تھے ‘ تری رحمت سے ڈھل گئے

بیمارِ گمرہی کو نویدِ شفا بھی تُو


بدلے ہیں میرے صبح و مسا تُو نے جس طرح

بدلےگا ایک دن مرے اَرض و سما بھی تُو


بے اَجر تیرے در سے نہ پلٹے گی میری نعت

ایک اور نعت کا مجھے دے گا صلہ بھی تُو

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے

یا نبی سلام علیک

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

خوشا وہ دن حرم پاک کی فضاؤں میں تھا

لائقِ حمد بھی، ثنا بھی تو

آمدِ شہ پر سجے ہیں مشرقین و مغربین

اس کی طرف ہوا جو اشارہ علیؓ کا ہے

ہم نے سینے میں مدینہ یوں بسا رکھا ہے

اللہ نے یوں شان بڑھائی ترے در کے

شکر خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے