میں ! کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں

میں ! کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں

تیر ی محفل میں چلا آیا ہوں


آج ہوں میں ترا دہلیز نشیں

آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں


کائناتوں پہ مَیں تیرے دم سے

آسمانوں کی طرح چھایا ہوں


چند پَل یوں تری قربت میں کٹے

جیسے اِک عمر گزار آیا ہوں


جب بھی میں اَرض ِ مدینہ پہ چلا

دل ہی دل میں بہت اِترایا ہوں


تیرا پیکر ہے کہ اِک ہالہء نور

جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں


کتنی پیاری ہے ترے شہر کی دھوپ

خود کو اکسیر بنا لایا ہوں


یہ کہیں خامئ اِیماں ہی نہ ہو

میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

قطرہ مانگے جو کوئی

نامِ مُحمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے

عشق دیاں اگاں نئیوں لائیاں جاندیاں

کرم آج بالائے بام آ گیا ہے

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

خیر کی خیرات بھی خیر الورٰی

عِشق حضرتؐ نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ نوازشیں یہ عنایتیں غمِ دوجہاں سے چھڑا دیا

میں فنا اندر فنا ہوں تُو بقا اندر بقا

گدائے کوئے حبیبؐ ہوں ملا ہے کیا دم بدم نہ پوچھو