کتنا سادہ بھی ہے، سچا بھی ہے

کتنا سادہ بھی ہے ‘ سچا بھی ہے معیار اُن کا

اُن کا گفتار کا آئینہ ہے کِردار اُن کا


اُن کو مانگا جو خدا سے ‘ تو سبھی کچھ مانگا

کیوں طلب گار ہو اوروں کا طلب گار اُن کا


اُن کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم

پیار کرتا ہے ہر اِنساں سے ‘ پرستار اُن کا


وہی ‘ ظلمات کی رگ رگ میں اُترتا ہوا نور

میں تو کر لیتا ہوں ہر صبح کو دیدار اُن کا


اے خدا ! اَجر کے اعلان سے پہلے سن لے

مجھ کو جنت سے سوا سایہ ء دیوار اُن کا


پسِ ہر حرف وُہی جلوہ فِگن رہتے ہیں

میری مانند مرا فن بھی وفادار اُن کا

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

یا رب! ہو در محبوبؐ پر قیام

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

آیا نہ ہوگا اس طرح، حسن و شباب ریت پر

مقصودِ زندگی ہے اِطاعت رسوؐل کی

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا

آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا

گُلوں سے دل کی زمینوں کو بھردیا تو نے

اے ہادئ دارین، مقدّر گرِ آفاق