کتنا سادہ بھی ہے ‘ سچا بھی ہے معیار اُن کا
اُن کا گفتار کا آئینہ ہے کِردار اُن کا
اُن کو مانگا جو خدا سے ‘ تو سبھی کچھ مانگا
کیوں طلب گار ہو اوروں کا طلب گار اُن کا
اُن کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم
پیار کرتا ہے ہر اِنساں سے ‘ پرستار اُن کا
وہی ‘ ظلمات کی رگ رگ میں اُترتا ہوا نور
میں تو کر لیتا ہوں ہر صبح کو دیدار اُن کا
اے خدا ! اَجر کے اعلان سے پہلے سن لے
مجھ کو جنت سے سوا سایہ ء دیوار اُن کا
پسِ ہر حرف وُہی جلوہ فِگن رہتے ہیں
میری مانند مرا فن بھی وفادار اُن کا
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال