چھوڑ فکر دنیا کی ذکر کر مدینے کا

چھوڑ فکر دنیا کی ذکر کر مدینے کا

سب دروں سے بہتر ہے ایک در مدینے کا


دہر میں بھٹکنے کا فائدہ نہیں کوئی

لطف تب ہے جینے کا ہو سفر مدینے کا


کتنی خوبصورت ہیں منزلیں مدینے کی

کتنا اچھا لگتا ہے ہم سفر مدینے کا


پیتے ہیں مدینے کا کھاتے ہیں مدینے کا

ہے کرم غلاموں پر کس قدر مدینے کا


کیا مری حقیقت ہے کیا ہے آبرو میری

ایک ہی حوالہ ہے معتبر مدینے کا


الفت مدینہ کا بس یہی تقاضا ہے

احترام دل سے کرے ہر بشر مدینے کا


ہاتھ نہ میں پھیلاؤں در پہ غیر کے جا کر

بن کے میں رہوں منگتا عمر بھر مدینے کا


نظروں میں جچا کب ہے اور کوئی نظارا

جلوہ جب سے دیکھا ہے اک نظر مدینے کا


لگ ہی جائے گی اپنی خاک بھی ٹھکانے پر

سر کو مل گیا جس دم سنگ در مدینے کا


باتوں باتوں میں باتیں کرتا ہے مدینے کی

کی قدر نیازی پر ہے اثر مدینے کا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

کیوں دروازہ دیکھوں کسی سکندر کا

رنج و آلام کا مارا ہوں

خطا کار پر مہرباں ہیں محمدؐ

ہادیؐ و رہبرؐ سرورِ عالمؐ

بڑی اُمید ہے سرکارﷺ قدموں میں بُلائیں گے

میری جانب بھی ہو اک نگاہِ کرم، اے شفیع الواریٰ، خاتم الانبیاء

سوسن و سنبل و لالہ کی پھبن شاہِ زمنؐ

لفظوں کو ممتاز بنایا میرے کملی والے نے

اپنے محبوب کے ،عِشق میں ڈوب کے

ذکر سرور سے دل بھرا نہ کرے