دکھایا جب زلیخا نے جمال ِ حضرت یوسف

دکھایا جب زلیخا نے جمال ِ حضرت یوسف

تو انگلی کاٹ لی اپنی سبھی نے ، فرطِ حیرت میں


بڑا چرچہ تھا اس قصّہ کا بازارِ محبت میں

بیاں کرتے رہے شاعر اسے حسنِ عقیدت میں


اِک اور قصّہ ہے بازارِ عشق میں مشہور

چُنا گیا جسے دیوار میں " انار کلی "


بہت ہی شور ہے دنیا میں اس کہانی کا

سنو تو کان کو لگتی ہے داستان بھلی


میں اب وہ ذکر سناتا ہوں جس کو سن کر لوگ

تمام بھول گئے ، قصۂ " انار کلی "


جہاں پہ ذکرِ زلیِخا کی داستاں ہے خموش

جہاں پہ سکتہ کے عالم میں ہے " انار کلی "


مقام عشق اک ایسا بھی ہے ادیبؔ جہاں

خوشی سے سر کو کٹاتے ہیں ، عاشقانِ نبی


جو دیکھتے رُخِ شق القمر تو ، کیا ہوتا ؟

فدا ہیں سن کے فقط نام جن کے شیدائی


اب آئیے درِ شاہِ اُمم پہ چلتے ہیں

جہاں فلک سے برستی ہے عشق کی مستی


فروغِ حسن وہیں ہے ، عروجِ عشق وہیں

جہاں پہنچ کے ہوتی ہے ، بلند ہر پستی


اک اُمتی جو تڑپتا تھا دور ، برسوں سے

ہوئی جو روضۂ اقدس پہ حاضری اس کی


لگائی جالیاں آنکھوں سے، خوب رویا وہ

نہ پوچھیے دلِ عاشق کی کیفیت کیا تھی


جب آیا وقت جدائی کا شہرِ طیبہ سے

تو اس کے دل کی صدا آہ بن کے یوں نکلی


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں ، چُن دو


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

ملے گی بھیک جو اُس پر ہی پل جاؤں گا میں آقا


اب اس دربار سے اُٹھ کر نہیں جاؤں گا میں آقا

اٹھائے گا کوئی مجھ کو تو مر جاؤں گا میں آقا


فنا ہو کر غبارِ راہ بن جاؤں گا میں آقا

بگولے بن کے آئے گی ہوا مجھ کو اُڑانے کو


میں دریا بن کے روؤں گا اسے اتنا سنانے کو

مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو


بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں چُن دو

مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو


بنا دو ابر ایسا ، کوچۂ و بازار پر برسوں

فصیل شہر پہ برسوں کہسار پر برسوں


مجھے شبنم بنا دو وہ کہ ہر گلزار پر برسوں

بنا دو برگِ گُل دن رات اُس دربار پر برسوں


مگر ٹھیرو! مجھے آنسو بنا دو نوک ِ مژگاں پر

اگر برسوں تو یہ کہہ کر درِ سرکار پر برسوں


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں،چُن دو


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

میرے چارہ گرو اتنا تو مجھ کو آسرا دے دو


مدینہ ہو میرا مدفن ، مجھے تھوڑی سی جا دے دو

جو دینا ہے مجھے اس شہر میں ، بہرِ خدا دے دو


اگر کچھ بھی نہیں تو مجھ کو یہ سزا دے دو

مجھے پتھر بنا د و تو دعائیں د ل سے دوں گا میں


بہت آرام سے دیوارِ طیبہ میں رہوں گا میں

مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو


بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں، چُن دو

مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو


شرف ہو دائمی اس حاضری کا ، یہ دعا مانگی

رہوں جاروب کش میں اس گلی کا یہ دعا مانگی


یہیں ہو ختم قصہ زندگی کا ، یہ دعا مانگی

وسیلہ لے کے پھر بنتِ نبی کا یہ دعا مانگی


بلایا ہے مجھے در پر تو پھر یہ بھی کرم کر دو

سفینہ ڈوب جائے واپسی کا ، یہ دعا مانگی


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں،چُن دو


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

بس گئی بوئے مدینہ میرے افکاروں میں


روح پھرتی ہے یہاں دشت میں کہساروں میں

میری توقیر ہی کیا ، میں ہوں گنہ گاروں میں


پھر بھی ہوں شہرِ نبی تیرے طلب گاروں میں

قربتِ شہرِ مدینہ کی ہے بس یہ صورت


کوئی چُن دے مجھے اس شہر کی دیواروں میں

مدینہ سے نہ جاؤں گا، مجھے دیوار میں چُن دو


بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں ، چُن دو

مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو


کسی دیوار میں چُن دیں تو میں دوں گا دعا ہر دم

غلامانِ نبی ، پھر آئیں گے بہرِ دعا ہر دم


کریں گے جب وہ دربار نبی میں التجا ہر دم

سہارا لیں گے میرا عاشقانِ مصطفیٰ ہر دم


لگائیں گے جب اپنے کان وہ دیوار سے در سے

ادیبِؔ خوش نوا کی بھی صدا آئے گی پتھر سے


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

بھلے مجھ کو کسی کوچہ کسی بازار میں، چُن دو


مدینہ سے نہ جاؤں گا ، مجھے دیوار میں چُن دو

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

تھم تھم! کہ برسنا ہے تجھے دیدۂ تر اور

دیکھ لی رب کے یار کی صورت

جس ویلے ایناں اکھیاں نوں روون دا قرینہ آ جاندا

اے فاتحِ اَقفالِ درِ غیب و حضوری

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

خوشی مناؤ خوشی مناؤ اے غم کے مارو

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے

وہ شان پائی کے نبیوں میں انتخاب ہوئے

تخلیق کا عنوان ہیں سرکارِ دوعالمؐ