دل کی پیشانی مواجہ پہ جھکا لی جائے

دل کی پیشانی مواجہ پہ جھکا لی جائے

آج سوئی ہوئی تقدیر جگا لی جائے


شاہِ ابرارؐ سے اُلفت ہو مری نس نس میں

خواہشِ زر میرے سینے سے نکالی جائے


دھر کے ماں باپ کے قدموں میں جبینِ اُلفت

عشقِ احمدؐ میں تڑپنے کی دُعا لی جائے


تیریؐ مٹھی میں ہے کونین کی دولت ساری

کیسے خالی تریؐ چوکھٹ سے سوالی جائے


زخم سینے کے کسی غیر کو دکھلائیں کیا

دل کی ہر بات مواجہ پہ سنا لی جائے


جانے کب جوش میں آ جائے کرم کا دریا

خواہشِ دید نگاہوں میں بسا لی جائے


دردِ فرقت ہے مدینے کے لیے روز افزوں

دردِ فرقت کی مدینے سے دوا لی جائے


پل میں ہو جائیں گے کافور اندھیرے دل کے

دل میں تصویر مدینے کی سجا لی جائے


گر ہے تسکینِ دل و جان کی خواہش اشفاقؔ

نعت ، سرکارؐ کی ہونٹوں پہ سجا لی جائے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

کیا کہوں کیسے ہیں پیارے تیرے پیارے گیسو

خطا کار چوکھٹ پہ آئے ہوئے ہیں

زمن بری بہ مدینہ صبا سلام علیک

مدحت سدا حضور کی لکھتا رہوں گا میں

تم سے کیفِ حضوری بیاں کیا کروں

وہ حجاب روضہء پاک ہو کہ نقابِ سبز ہو درمیاں

قافلہ جب کوئی طیبہ کو رواں ہوتا ہے

آبلے ہوں پاؤں میں آب آبدیدہ ہو

خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد

ہر جگہ رحمتوں کا نشاں آپؐ ہیَں