گھپ اندھیرا تھا یہاں بزمِ حِرا سے پہلے
حُبس کتنا تھا رسالت کی گھٹا سے پہلے
کس طرح کھُلتا بھلا بابِ اجابت اُن پر
بھول جاتے تھے دُعا لوگ دُعا سے پہلے
جانتا کوئی نہ تھا جیسے وفا کے معنی
ساری دنیا میں مرے جانِ وفا سے پہلے
سارے چہروں کا وہی حال ہوا کرتا تھا
حال پھولوں کا جو ہوتا ہے صبا سے پہلے
ایڑیاں کتنے رگڑتے تھے کہ بچ جائیں مگر
مر ہی جاتے تھے کوئی لوگ دوا سے پہلے
جانے کتنے ہیں وہ نادان جو اُن کے گھر سے
لوٹ آتے ہیں یہاں اُن کی عطا سے پہلے
تم نے سوچا ہے کبھی خلقِ خدا میں لوگو !
کون تھا جلوہ نما ارض و سما سے پہلے
کتنی بے جوڑ صدائیں تھیں جہاں میں انجؔم
شور ہی شور تھا رحمت کی صدا سے پہلے
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو