حدِ خرد تدبیروں تک ہے

حدِ خرد تدبیروں تک ہے

عشق مگر تقدیروں تک ہے


میرے نبیؐ کی حدِّ وراثت

جنّت کی جاگیروں تک ہے


مجمل مجمل خلق نبیؐ کا

قرآں کی تحریروں تک ہے


سب ہیں مضامیں مدحِ نبیؐ کے

اوج اس کا تفسیروں تک ہے


بِن طاعت کے عشق کا دعویٰ

تحریروں تقریروں تک ہے


خواہشِ حسنِ لقائے پیمبرؐ

خوابوں تک ، تعبیروں تک ہے


ان کے صدقے میری رسائی

جنّت کی تنویروں تک ہے


آگے ان کی منشا طاہرؔ

اپنا کام تو نیروں تک ہے

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

طیبہ جو یاد آیا ‘ آنسو ٹپک گئے ہیں

ایک دُرِ بے بہا ہے یا ہے قطرہ نور کا

دِل میرا یہ کہتا ہے محبوبِ خدا کہیئے

حمد کی یوں توقیر بڑھائی جاتی ہے

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

ذرّے بھی اس کو دیدہء بینا کی روشنی

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمدﷺ

ایسا کریم ایسا سخی اور کون ہے

بخوفِ گردشِ دوراں اداس کیوں ہوگا

رسول اللہ کی آمد سے اوّل