پروفیسر محمد طاہر صدیقی

مولا مالک سارے جہانوں کا ہے

ہو رزق کھلا میرا کملی والے

کشکول ہے خالی تیرے منگتے کا

آداب نہ ہوں گر تو ہے سب بے کار

نے خوب عمل کوئی نہ ہے کردار

انسان کی عظمت کا باعث ہے درود

تسکین فزا ہے حج و عمرہ کا سفر

لولاک لما کی ہے ہر وقت صدا

ہے نورِ شریعت بھی آقاؐ نے دیا

ترغیب میں رغبت میں ہے لطف و عطا

احساس کی گل کاری ہے ان کا کرم

ایماں کی خبر کچھ دینی ہے مجھے

انسان کی عظمت کا باعث ہے درود

ممنون ہوں مجھ پر ہے آقاؐ کی نگاہ

ادراک کی ہر حد سے ہے آگے کی بات

اے کاش کھلیں نظر پہ جالی کے شگاف

شیرینیِ اسلوب ملی لفظوں کو

وجدان پہ الہام کے موتی اترے

بخشا ہے ہمیں حق نے جو ماہِ رمضاں

جب روضۂ اطہر پہ دعا ہوتی ہے

جو دردِ محبت کی ہیں لذّت سمجھے

دل! حدِّ تخیُّل سے بہت آگے چل

عالم میں بشر کی ہے جو تکریم آئی

یہ زیست مری اوجِ ہزیمت پر ہے

دنیا کو ملا نور تری سیرت سے

اک نکتہ یہی رب کی اطاعت کا ہے

ہرگز نہیں کاوش یہ شعوری ہوتی

رکھتے ہیں عجب انس حرم سے طائر

چہروں سے مدینے کی ہے خوشبو آئی

سب جود و سخا ہادیِ کامل سے ہے