ہم آج آئے ہیں زخم جگر دکھانے کو

ہم آج آئے ہیں زخم جگر دکھانے کو

فسانۂ دلِ فرقت زدہ سُنانے کو


حضورؐ کے در اقدس کی رفعتیں دیکھو

کہ عرش والے بھی آتے ہیں سر جھکانے کو


گناہگارو مچل جاؤ تھام لو دامن !

وہ دیکھو آئے ہیں سَرکار بخشوانے کو


تمہارے نُور سے معمور ہو گئی دُنیا

تمھارے جلوے نے چمکا دیا زمانے کو


حلیمہ گود میں لے کر حضورؐ سے بولیں

شرف تمھیں سے مِلاہے مرے گھرانے کو


بلا لو اب تو مدینے کہ اک مُدّت سے !

ترس رہی ہے جبیں تیرے آستانے کو


گناہ گاروں کی عزّت ہے جن کے ہاتھ اعظمؔ

وہ کیوں نہ آئیں گے بگڑی مری بنانے کو

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

مشکلوں میں ہیں چشمِ کرم کیجئے

زندگی کا ہے وظیفہ الصّلوٰۃُ والسّلام

وہ دن آئیں کبھی ہم بھی بنیں مہماں مدینے میں

منم ادنیٰ ثنا خوانِ محمّدؐ

جس دل میں غمِ احمدِؐ مختار نہ ہوگا

ہم ہیں بے یار و مددگار رسولِ عربی ؐ

کیا عجب شانِ مصطؐفائی ہے

یہی نہیں کہ فقط دل لگانا آتا ہے

ابنِ یعقوبؐ کو اللہ نے صورت بخشی

طیبہ سے منگائی جاتی ہے