یہی نہیں کہ فقط دل لگانا آتا ہے

یہی نہیں کہ فقط دل لگانا آتا ہے

تری تلاش میں خود کو مٹانا آتا ہے


ترے فقیروں کو گھر بر لٹانا آتا ہے

ترے اشارے پہ سر بھی کٹانا آتا ہے


غرض جو کہہ دیں زباں سے نبھانا آتا ہے

تمھاری راہ پہ قرباں دل و جگر ساقی


ادھر بھی ایک محبّت بھری نظر ساقی

گر اور کچھ نہیں اتنا کرم تو کر ساقی


ہماری بستی کی جانب سے بھی گذر ساقی

تمھیں تو اُجڑے ہوؤں کو بسانا آتا ہے


یہ آرزو ہے کہ اب کوئی آرزو نہ رہے

ترے بغیر کسی شے کی جستجو نہ رہے


سکونِ قلب میسّر ہو ہاؤ ہو نہ رہے

وہ مے پلا کہ مجھے حاجتِ سبو نہ رہے


سنا ہے تم کو نظر سے پلانا آتا ہے

چمن کو ناز ہو جس پر وہ ایک خار ہوں میں


نہیں نہیں چمن عشق کی بہار ہوں میں

جو میکدے کی ہو زینت وہ بادہ خوار ہوں میں


یہ صرف تیرا کرم ہے کہ تاجدار ہوں میں

تمھیں گداؤں کو اعظؔم بنانا آتا ہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا

اے شاہؐ ِ دیں ! نجات کا عنواں ہے تیری یاد

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

اپنے قدموں میں بلا خواجہ پیا خواجہ پیا

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

رسولِ خدا کی غلامی میں کیا ہے

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ

اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے

بارگاہِ نبوی میں جو پذیرائی ہو

جس سے ملے ہر دل کو سکوں