حق سے بندوں کو ملایا آپ نے

حق سے بندوں کو ملایا آپ نے

نارِ دوزخ سے بچایا آپ نے


منبعِ انوار ہے ذات آپ کی

ظلمتوں کو ہے مٹایا آپ نے


لڑتے مرتے تھے جو ایک اِک بات پر

قلب کو ان کے ملایا آپ نے


جو کسی سے ہو سکا نہ ہو سکے

کام وہ کر کے دکھایا آپ نے


اختیار ایسا خدا نے دے دیا

ڈوبے سورج کو پِھرایا آپ نے


آخری حج رہنما آئین ہے

دِلنشیں خطبہ سنایا آپ نے


اُس کو دنیا میں شہنشاہی ملی

ہے گدا جس کو بنایا آپ نے


کوئی داتا اور کوئی خواجہ بنا

رنگ ہے جس پر چڑھایا آپ نے


دو جہاں میں اُٹھ نہیں سکتا کبھی

جس کو نظروں سے گرایا آپ نے


بس وہی عاشق مدینے جا سکا

جس کسی کو ہے بُلایا آپ نے


آسرا مرزا کی بخشش کا ہُوا

مدح خواں اپنا بنایا آپ نے

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں

آگیا جگ اتے لعل وے اماں آمنہ دا سوہنا

انبیا کے سروَر و سردار پر لاکھوں سلام

بے مثل زلفِ ناز ہے چہرہ ہے لاجواب

غمگین کبھی ہوگا نہ رنجور ملے گا

دیکھ لوں جا کر مدینہ پاک کو

بنی جو عشق کی پہچان تربت

بھُلایا ہے تجھے تو ہر گھڑی آزار لگتی ہے

آپ آئے ہوئے دوجہاں ضوفشاں

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں