حضور آپ آئے تو دل جگمگائے

حضور آپ آئے تو دل جگمگائے ورنہ لا چاروں کا کیا حال ہوتا

اسیروں کنیزوں پہ کیا کچھ گزرتی مصیبت کے ماروں کا کیا حال ہوتا


آپ آئے ہیں تو یہ آئیں بہاریں ہر سمت صلی علی کی پکاریں

جو ماہ ربیع الاول نہ ہوتا تو پھر ان بہاروں کا کیا حال ہوتا


سبھی انبیاء ہیں سلامی کو آئے پیچھے کھڑے ہیں قطاریں بنائے

ان سب میں اگر کملی والے نہ ہوتے تو لاکھوں ہزاروں کا کیا حال ہوتا


ادب سے پکارے ملائک بھی سارے کہ تشریف لائے ہیں آقا ہمارے

وہ معراج کی شب عرش پر نہ جاتے تو چاند اور ستاروں کا کیا حال ہوتا


زمیں خوش فلک خوش حورو ملک خوش خالق بھی خوش ہے ساری خلق خوش

ہوتی نہ گر خوش یہ ساری خدائی تو رنگیں نظاروں کا کیا حال ہوتا


محشر میں ہم سب ہی گھبرا گئے تھے دوزخ کی آتش سے تھرا گئے تھے

حضور آپ گر نہ ہمیں بخشواتے تو ہم گناہ گاروں کا کیا حال ہوتا


ہم پہ شکوری یہ اُنکا کرم ہے، اُنکے کرم سے سب کا بھرم ہے

وہ غاروں میں رو رو دعائیں نہ کرتے تو ہم خطا کاروں کا کیا حال ہوتا

شاعر کا نام :- رمضان شکوری

دیگر کلام

تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے

تصور میں مدینہ آ گیا ہے

شکر صد شکر کہ رہتی ہے

جسے عشق شاہ رسولاں نہیں ہے

جن کا ہے طیبہ مقام

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

حبیبا اچی شان والیا

نعتیں سرکار کی پڑھتا ہوں میں

آنکھیں رو رو کے سُجانے والے

اہلِ صِراط رُوحِ امیں کو خبر کریں