ہم نے سرکار کی چوکھٹ پہ یہ منظر دیکھے

ہم نے سرکار کی چوکھٹ پہ یہ منظر دیکھے

مانگتے بھیک زمانے کے سکندر دیکھے


آپ سا رحمت عالم کوئی دیکھا ہی نہیں

یوں تو دنیا میں ہزاروں ہی پیمبر دیکھے


عاصیو آؤ چلیں سرور دیں کے در پر

جوش پر اُن کے کرم کے ہیں سمندر دیکھے


دیکھنا چاہے جو انداز شہنشاہی کے

شاہ بطحا کے غلاموں کو وہ آ کر دیکھے


ڈھونڈتا پھرتا ہے جو یار کو گھر سے باہر

جھانک کر اپنے کبھی دل کے وہ اندر دیکھے


دشمن جاں کو نوازا ہے دُعائیں دے کر

رخ رحمت کے نہ بدلے ہوئے تیور دیکھے


اس کو دنیا کے خزانوں کی ہو پرواہ کیونکر

پیارے جس کو کوئی مرد قلندر دیکھے


جھوم جھوم اُٹھا قیامت میں پیاسوں کا ہجوم

جس گھڑی ساقی کوثر لب کوثر دیکھے


پھر بلا مجھ کو مدینے میں مدینے والے

ایک عرصہ ہوا سرکار تیرا در دیکھے


اک تیری ذات ہی کافی ہے نیازی کیلئے

در تیرا چھوڑ کے کیوں غیر کا وہ در دیکھے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے

افق افق تھیں ظلمتیں

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا

سرِ بزم ہر دوسرا آتے آتے

دل میں ہے تڑپ اور ان آنکھوں میں نمی ہے

مصطفیٰ کیسے بشر ہیں کوئی کیا پہچانے

ذکر دی بزم سجاون دی عادت پئے گئی اے

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

دِل کہتا ہے ہر وقت صفت اُن کی لکھا کر

سارے کا سارا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے