ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

ستارے، چاند، سورج مرکزِ انوار کے آگے

کھڑے ہیں بھیک لینے کو تِرے دربار کے آگے


نہیں جچتا کوئی حسنِ شہِ ابرار کے آگے

سبھی بے نور ہیں ان کے حسیں رخسار کے آگے


ہمیشہ بیٹھ جاتا ہے درِ سرکار کے آگے

کسی کا بس نہیں چلتا دلِ بیمار کے آگے


ہمیشہ یاد رکھنا آیتِ لاترفعوا زائر

بلند آواز ہونے پائے نہ سرکار کے آگے


سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اپنے بھی پرائے بھی

مِرے آقا تمہارے ہاشمی کردار کے آگے


رضا سے مدحتِ سرکار کا فن ہم نے سیکھا ہے

نہیں پڑھتے قصیدہ ہم کسی زردار کے آگے


سلامت ہی نہ رہ پائے گی بینائی شفیقؔ اپنی

کہاں آنکھیں ٹِکیں گی روئے پُر انوار کے آگے ؟

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

کول اپنے رکھ مدینے والیا

نعت ہی نعت جو قرآن کے ادراک میں ہے

مائِل کرم پہ آپؐ کی جب ذات ہو گئی

اغیار کا احسان اٹھایا نہیں جاتا

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

ہاتھ میں دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

نہیں ہے لازمی کوئی شے زندگی کے لیے

یہ سروری ہے بھلا کیا سکندری کیا ہے

مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دِل سے