حُسن مُطلق کے لیے ذاتِ گرامی چاہیے

حُسن مُطلق کے لیے ذاتِ گرامی چاہیے

طوفِ کعبہ میں بھی طیبہ کی سلامی چاہیے


مشکلیں خود مشکلوں میں مبتلا ہوجائیں گی

ہاں زبانِ دل سے وردِ نامِ نامی چاہیے


عرش کیا معراج کیا اور منزلِ قوسین کیا

اس سے بڑھ کر آپ کو اعلیٰ مقامی چاہیے


ہر مَلک صرف ایک بار آتا ہے درِ دربارِ پاک

کم سے کم اتنا تو آدابِ سلامی چاہیے


جرم رحمت بن کے چھا جائیں فضائے روح پر

عرصہء محشر میں مجھ کو ایسا حامی چاہیے


ہر نفس پر مستقل چھلکے گا جامِ معرفت

چشمہء کوثر کی اصلی تشنہ کامی چاہیے


میری کیا جراءت کہ بن جاؤں غلام ِ مصطفیٰ

مجھ کو تو ان کے غلاموں کی غلامی چاہیے


نعت گوئی کے لیے درکار ہے کچھ تو صبیحؔ

حُسنِ حسّاں، صدقِ قدسیؔ جامِ جامیؔ چاہیے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

کُملائی ہوئی روح کُو یارب گُلِ تر کر

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

آو کہ ذکر حسن شہ بحر و بر کریں

گدائے کوئے حبیبؐ ہوں ملا ہے کیا دم بدم نہ پوچھو

ماہِ روشن بہارِ عالم

سارا پیار زمانے دا اودے پیار توں وار دیاں

دیکھا سفر میں آبلہ پا، لے گئی مجھے

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا

تمہارے ذَرِّے کے پر تو ستارہائے فلک