عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

معطّر ہوتے جاتے ہیں بدن بھیگی دُعاؤں کے


درِ محبوبؐ کو چھُو کر نشے میں آگئی ہوں گی

بکھرتے جا رہے ہیں بال بے قابو ہواؤں کے


سلامی دینے آتے ہیں اُسے اُڑتے ہوئے بادل

لگے ہیں کان اُس گھر کی طرف اُڑتی رِداؤں کے


مدینے سے گزرتا ہے جھکا کر سر ہر اک منظر

قدم آہستہ ہو جاتے ہیں سورج کی شعاعوں کے


ابوذر بن کے اٹھتا ہے کوئی بن کر بلال انجمؔ

عجب ہیں ذائقے اُس دیس کے پیڑوں کی چھاؤں کے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

ان کی آنکھوں پہ فدا چاند ستارے ہونگے

گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے

ترے ذکر و فکر میں دن ڈھلا تری گفتگو میں سحر ہُوئی

بڑی کریم تری ذات یا رسول اللہ

حضور آپ کے آنے سے روشنی پھیلی

کرم ہے بے نہایت گنبدِ خضرا کے سائے میں

اے راحت جاں جو تِرے قدموں سے لگا ہو

ہے مرکز مدینہ ہے محور مدینہ