عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے
معطّر ہوتے جاتے ہیں بدن بھیگی دُعاؤں کے
درِ محبوبؐ کو چھُو کر نشے میں آگئی ہوں گی
بکھرتے جا رہے ہیں بال بے قابو ہواؤں کے
سلامی دینے آتے ہیں اُسے اُڑتے ہوئے بادل
لگے ہیں کان اُس گھر کی طرف اُڑتی رِداؤں کے
مدینے سے گزرتا ہے جھکا کر سر ہر اک منظر
قدم آہستہ ہو جاتے ہیں سورج کی شعاعوں کے
ابوذر بن کے اٹھتا ہے کوئی بن کر بلال انجمؔ
عجب ہیں ذائقے اُس دیس کے پیڑوں کی چھاؤں کے
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو