آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

تسکیں کے کُھل گئے ہیں کئی باب سامنے


کیوں جگمگا اُٹھے نہ شب ِ تارِ زندگی

جب ہو رُخِ رسُولؐ کا مہتاب سامنے


پایا ہے لطفِ سرورؐ ِ عالم کو چارہ ساز

جب ہو نہ کوئی صورتِ اسباب سامنے


سُوئے حجاز قافلہ شوق ہے رواں

دریائے اضطراب ہے پایاب سامنے


اس زور سے دھڑکنا یہاں پر روا نہیں

ان کا حرم ہے اے دلِ بے تاب سامنے


کس شان سے حضورؐ ہیں مسجد میں جلوہ ریز

کتنے ادب سے بیٹھے ہیں اصحاب سامنے


تائبؔ فضائے شہرِ نبی ؐ ہے خیال میں

یا خُلد کا ہے منظرِ شاداب سامنے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

میرے دل میں ہے یادِ محمد ﷺ

درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

بخت والوں کو مدینے میں ٹھکانہ مل گیا

مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں

دل میں ہے خیال رخ نیکوئے محمدﷺ

نبیؐ کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

پھر مدینے کی فَضائیں پاگیا

جد رات پئی تے سوہنے نوں رب کول بلا کے ویکھ لیا

کیا کچھ نہیں ملتا ہے بھلا آپ کے در سے

آگئے ہیں مصطَفیٰ صلِّ علٰی خوش آمدید