جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

اُس کے پیچھے دلِ بے تاب بھی چل پڑتا ہے


کوئی نا مانے مگر قبلہ صفَت ہے روضہ

دل اُسے تکتے ہی سجدے کو اچھل پڑتا ہے


اے مِرے لفظِ دعا! یاد کرا دوں تجھ کو

سبز رنگت کا بھی رستے میں محل پڑتا ہے


پڑھتا رہتا ہوں درود اُن پہ بصد شوق و ادب

ورنہ سانسوں کی روانی میں خلل پڑتا ہے


کیا مقدّر ہے کہ ذکرِ درِ جانانہ پر

چشمہِ اشک نگاہوں سے اُبل پڑتا ہے


ہم علی والے جو لیتے ہیں ابوبکر کا نام

اِس سے کیوں گردنِ بد بخت میں بَل پڑتا ہے


عرش والے بھی کریں اُس کے مقدّر کو سلام

قُرْعہ جس شخص کا طیبہ کا نکل پڑتا ہے


مدحتِ شاہِ عرب میں ہے تبسم وہ نشہ

اب مِرا دل نہ فسانہ نہ غزل پڑھتا ہے

دیگر کلام

آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا

نورِ احمد کی حقیقت کو جو پہچان گیا

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

محبوب کے قدموں میں اِک

دیکھ لوں جا کر مدینہ پاک کو

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا مدینے کی

مدینے کے والی مدینے بلا لو یہ پیغام لے جا صبا جاتے جاتے

کتنے رنگین تری محفل کے نظارے ہوں گے

طلوع فجر سے پہلے

اے شہ شاہان رسل السلام