اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

اِدھر ِاس گنہگار عاصی کا سر ہو


وہ جب مجھ سے پوچھیں بتا کوئی خواہش

مِرا ہاتھ بس اُن کی نعلین پر ہو


گھٹا ظلمتوں کی ہے چھائی جہاں پر

شبِ تار بیتے ، ہویدا سحر ہو


پہنچ جائوں اک بار میں اُن کے در پر

تو پھر زندگانی وہیں پر بسر ہو


مِرا کملی والا رسولوں میں ایسے

کہ تاروں کے جھرمٹ میں جیسے قمر ہو


جلیل اُن کے در کی ملے جو گدائی

تو پھر بادشاہی پہ کس کی نظر ہو

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مہکار مدینے کی

دیگر کلام

مال و دولت نہ لعل و گہر مانگتا ہوں

دولت تھی مِرے پاس نہ مایہ

بہت اونچا ہے قسمت کا ستارا

آقاؐ کا دربار مدینہ

راحتِ قلبِ حزیں اسمِ گرامی آپؐ کا

مدینے کو جاؤں مِری جستجو ہے

ہے تشنہ آرزو ‘ آقا !

تیرے کوچے سے جس کا گزر ہو گیا

کریم ! تیرے کرم کا چرچا

شہر نبیؐ سے آئے ٹھنڈی ہوا ہمیشہ