جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

سوکھی تھی شاخ دل کی ثمر بار ہو گئی


کب سے خزاں رسیدہ تھی یہ زندگی مری

رحمت کے پھول کھل گئے گلزار ہوگئی


اب ہو رہی ہے عشقِ نبی میں بسر حیات

صد شکر میری روح بھی سرشار ہوگئی


جب سے ثنائے سرورِ دیں سے ہوا ہے پیار

الجھی ہوئی جو سوچ تھی ہموار ہو گئی


اک رات آپ خواب میں جلوہ دکھا گئے

قسمت جو سو رہی تھی وہ بیدار ہوگئی


دنیا کی نعمتوں کی بھی چاہت نہیں رہی

بس آپ ہی کے در کی طلب گار ہوگئی


رکھی جبیں جو ناز نے چوکھٹ پہ آپ کی

ایسی چمک پڑی کہ پُر انوار ہو گئی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

تڑپدے رات دن رہنا تے اشکاں دی روانی ایں

سَرورِ دنیا و دیں سرکارؐ ہیں

ترے در سے غُلامی کا ، شہا ! رشتہ پُرانا ہے

ترے کرم کا خدایا کوئی حساب نہیں

کس قدر مانوس ہیں سارے پیمبر آپؐ سے

کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

فضل ربِ العلی اور کیا چائیے

پروردگارِ عَالَم

یہ مانا کہ سب کچھ خُدا سے ملا ہے