جس کی جاں کو تمنّا ہے دل کو طلب
وہ سکوں بخش محفلِ مدینے میں ہے
یُوں تو جینے کو ہم جی رہے ہیں مگر
جاں مدینے میں ہے دل مدینے میں ہے
فکرِدُنیا وہاں دُور پاؤ گے تم
قلب میں ہر طرف نُور پاؤ گے تم
روح کو اپنی مسرُور پاؤ گے تم
اِک عجب کیفِ کامل مدینے میں ہے
ہر تمنّا وہاں جا کے بر آئے گی
ایک رحمت کی دُنیا نظر آئے گی
نا اُمیدو تم اتنے پریشاں نہ ہو
آرزوؤں کا حاصل مدینے میں ہے
کیا مہرو نجم اور کیا انس و جاں
ہے اِسی سمت مائل دلِ دوجہاں
کوئی سمجھے نہ سمجھے حقیقت یہ ہے
ذرّہ ذرّہ کی منزل مدینے میں ہے
بار ک اللہ یہ ذوق و شوق و خوشی
بارک اللہ یہ وجد و وارفتگی
عشق کا طوف ہر لمحہ صَلِّ علیٰ
عشق کا کعبہء دل مدینے میں ہے
ہے تصوّر میں ہر وقت باب السلام
ہیں تصوّر میں ہر لحظہ وہ شقف و بام
جب سے بہزؔاد اُن کا کرم ہوگیا
جاں مدینے میں ہے دِل مدینے میں ہے
شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی