تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول
نجوم و کہکشاں سب کیا ہیں گردِ پائے رسول
اُنہی کی یاد اُنہی کا خیال اُن پہ درود
یہی عمل ہو مِرا روز و شب یہی معمول
انہی کی یاد میں گزرے تو کار آمد ہے
نہیں تو موت بھی بے سود زندگی بھی فضول
ہے وردِ سورتِ والیل و والضحیٰ جب سے
نظر میں رہتا ہے عکسِ جمالِ پاکِ رسول
غمِ حبیبِ خدا دل کو شادماں رکھے
مجھے نہ یورشِ آلام کر سکے گی ملول
لگائیں آنکھوں میں اپنی تو قلب روشن ہو
کہ کیمیائے سعادت ہے اُن کے پاؤں کی دھول
خدا تک اور کوئی راستہ نہیں جاتا
خدا کے دوست اگر ہیں تو عاشقانِ رسول
شفیقؔ کاش وہی ایک شعر تو لکھتا
جو بارگاہِ رسالت مآب میں ہو قبول
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت