تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول

تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول

نجوم و کہکشاں سب کیا ہیں گردِ پائے رسول


اُنہی کی یاد اُنہی کا خیال اُن پہ درود

یہی عمل ہو مِرا روز و شب یہی معمول


انہی کی یاد میں گزرے تو کار آمد ہے

نہیں تو موت بھی بے سود زندگی بھی فضول


ہے وردِ سورتِ والیل و والضحیٰ جب سے

نظر میں رہتا ہے عکسِ جمالِ پاکِ رسول


غمِ حبیبِ خدا دل کو شادماں رکھے

مجھے نہ یورشِ آلام کر سکے گی ملول


لگائیں آنکھوں میں اپنی تو قلب روشن ہو

کہ کیمیائے سعادت ہے اُن کے پاؤں کی دھول


خدا تک اور کوئی راستہ نہیں جاتا

خدا کے دوست اگر ہیں تو عاشقانِ رسول


شفیقؔ کاش وہی ایک شعر تو لکھتا

جو بارگاہِ رسالت مآب میں ہو قبول

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم

مسافر جاندیا مدینے مرا وی جا کے سلام کہنا

نبیؐ کی یاد ہے سرمایہ غم کے ماروں کا

افتخارِ کائناتِ حسن ہے سویا ہوا

تعلق جوڑ لینا اور پھر محوِ ثنا رہنا

جو اُس کو دیکھ لے وہی صاحبِ نظر لگے

ہمیں عظمتوں کا نشاں مل گیا ہے

کبھی بادل کے رنگوں میں

صف بستہ تھے عرب

سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں