ہمیں عظمتوں کا نشاں مل گیا ہے

ہمیں عظمتوں کا نشاں مل گیا ہے

رواں رحمتوں کا زماں مل گیا ہے


غریبوں کا والی کوئی بھی نہیں تھا

ہمیں والیٔ دو جہاں مل گیا ہے


گھٹا ظلمتوں کی تھی چھائی جہاں پر

وہاں پر درخشاں سماں مل گیا ہے


اشارے سے توڑا چمکتے قمر کو

نیا معجزہ اک وہاں مل گیا ہے


گواہی جو دی سو سمارِ زمیں نے

تو اسلام کو اک جواں مل گیا ہے


بدن میں تھا میرے جو دل تیرگی میں

اُسے روشنی کا جہاں مل گیا ہے


وہ سرکار احمد عرب کی زمیں کا

مکیں تھا وہاں کا یہاں مل گیا ہے


یہ قائم ثمر ہے جو لکھتا ہوں مدحت

سہانا سا حرف و بیاں مل گیا ہے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

اللہ اللہ یہ گناہگار پر شفقت تیری

ان کے آنے کی خوشیاں مناتے چلو

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

حضور نے کُفر کے اندھیروں کو

نکہت و رنگ و نور کا عالم

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

تُو ایک قلزمِ رحمت وسیع و بے پایاں

جس دَور پہ نازاں تھی دنیا

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے