دل ڈوبتا ہے ہجر کے نا دیدہ آب سے

دل ڈوبتا ہے ہجر کے نا دیدہ آب سے

کب سرفراز ہو گا محمد کے خواب سے


اُن کو دہن دیا ہے خدا نے وہ بے مثال

کڑوے کو میٹھا کر دے جو اپنے لعاب سے


درماں ہر ایک درد کا میرے حضور ہیں

ہم کو پتہ چلا ہے خدا کی کتاب سے


جب حشر میں کریں گے شفاعت وہ شان سے

ہم کو اماں ملے گی خدا کے عذاب سے


ذکرِ خدا کا لطف جسے ہو گیا عطا

اس کو غرض نہیں ہے صدائے رباب سے


خضرٰی کے ہیں نصیب خدا کے ہی فضل سے

جو جگمگا رہا ہے بڑی آب و تاب سے


معراج پر گئے ہیں محمد جو عرش پر

جلوہ دکھا دیا ہے خدا نے حجاب سے


محبوب سر اٹھاؤ تو سجدے سے اب ذرا

ہم نے دعا سنی ہے تمھارے حساب سے


امت کو بخش دینا کہا تھا حضور نے

قائم کبھی نہ ڈرنا تو روزِ حساب سے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

ہمراہ اپنے بطحا مجھے لے کے جاؤ لوگو

محبت کو قلم میں ڈال کر حرفِ ثنا لکھ دے

ہر طرف مولا کی مدحت جو بیاں ہوتی ہے

ہمیں عظمتوں کا نشاں مل گیا ہے

خیالوں میں اُن کا گزر ہو گیا ہے

مہک مدینے کی لائے بہار اب کے برس

جہاں ہے منور مدینے کے صدقے

جو شخص آپ کے قدموں کی دھول ہوتا نہیں

درِ اقدس پہ مجھ کو بھی بلائیں گے کسی دن وہ

دلِ عشاق شہرِ نور سے آیا نہیں کرتے