کب چھڑایا نہیں ہم کو غم سے

کب چھڑایا نہیں ہم کو غم سے کب مصیبت کو ٹالا نہیں ہے

کب کڑی دھوپ میں مصطفےٰ نے سایہ کملی کا ڈالا نہیں ہے


ان کی رحمت کا کیا ہے ٹھکانا دیکھ لے سوئے طائف زمانہ

موسم سنگ باری میں لب پر کیا دُعا کا اُجالا نہیں ہے


لاج رکھی گئی ہر صدا کی دل نوازی ہوئی ہر گدا کی

ہے سخی اُن کا دربار ایسا کسی سائل کو ٹالا نہیں ہے


گونج ان کی ثناء کی رہی ہے ، ہر نبی نے خبر ان کی دی ہے

کوئی ایسا صحیفہ نہیں ہے جس میں ان کا حوالہ نہیں ہے


لڑ کھڑاتا ہوا جب چلا ہوں بھیڑ نے راستہ دے دیا ہے

راہِ ہستی میں ان کے کرم نے کس جگہ پر سنبھالا نہیں ہے


ہے جہاں بھی حکومت خدا کی رحمتیں ہیں وہیں مصطفیٰ کی

سارے عالم ہیں چشم کرم میں کس جگہ کملی والا نہیں ہے


اُن کی مدحت پہ مامور ہوں میں غیر کی مدح سے دور ہوں میں

فکر و فن کو صبیحؔ اپنے میں نے کبھی غزلوں میں ڈھالا نہیں ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

مومنو دین کے سردار چلے آتے ہیں

جنت دیاں بھاویں گھلیاں نے تے بھاویں عرش معلیٰ اے

رسول اکرم حبیب داور درود تم پر سلام تم پر

سرکارِ مدینہ کی عظمت کو کیا سمجھے کوئی کیا جانے

یارسول اللہ تیرے در کی فضاوؔں کو سلام

میں مدینے میں ہوں حاضر وقت بھی اور بخت بھی

نورِ نبیؐ ہے نظّارہ گستر اللہ اکبر

مِل جاوے جے چج حضوروں

کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا