کبھی نہ چھوڑے ہے تنہا خیالِ یار مجھے

کبھی نہ چھوڑے ہے تنہا خیالِ یار مجھے

خیال یار نے بخشا بڑا قرار مجھے


میں یورشِ غم دنیا سے مر گیا ہوتا

تیرے کرم نے سنبھالا ہے بار بار مجھے


کبھی جو مست نگاہوں سے تو نے دیکھا تھا

چڑھا ہوا ہے ابھی تک وہی خمار مجھے


تیرے قدم کی میں نسبت سے سرفراز ہوا

تیرے ہی صدقے ملی عزت و وقار مجھے


ہیں اور دولتِ دنیا پر ناز ہے جن کو

ترا کرم ہے فقط وجہ افتخار مجھے


وہ شخص دیکھ کے دل جس کو مسکراتا تھا

چلا گیا ہے کہاں کر کے سوگوار مجھے


میں اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہوں

جو دے گیا ہے ہمیشہ کا انتظار مجھے


کبھی تو وجہ سکون بن گئیں تری یادیں

کبھی کیا تری یادوں نے بے قرار مجھے


یہ ہے غلامی آل بتول کا صدقہ

بڑے تپاک سے ملتے ہیں تاجدار مجھے


ان آنسوؤں کو نیازی میں کس طرح روکوں

دل حزیں پہ نہیں کچھ بھی اختیار مجھے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا

اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں

ہر امکانِ ثنا سے ہے فزوں شانِ شہؐ والا

ہے تقدیسِ شمس و قمر سبز گُنبد

گدا نواز در لطف کا گدا رکھنا

زمین ہے میرے سر پہ جیسے

جو وہاں حاضری کا ارادہ کرے

لکھ درود نبی دے اُتے لکھ سلام نبی نوں

پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال

کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی