زمین ہے میرے سر پہ جیسے

زمین ہے میرے سر پہ جیسے

ٹھہر گئی رُوح دَر پہ جیسے


بدن کے ہمراہ چل پڑا ہُوں

دَرِ نبیؐ سے پلٹ رہا ہُوں


سکون چھَینا ثواب چھینا

نظارۂ لاجواب چھینا


فرائضِ دُنیوی نے مجھ سے

درِ رسالت مآب چھینا


رُواں رُواں آپ کو پکارے

کٹیں رگِ جاں سے موڑ سارے


حرم کو مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہُوں

دَرِ نبی سے پلٹ رہا ہُوں


مَیں یوں دیارِ نبی سے نِکلا

کہ جیسے شعلہ کلی سے نکلا


لیِے ہوئے رحمتوں کے سائے

میں حلقۂ روشنی سے نکلا


اگرچہ پی آیا ہوں سمندر

مگر بڑی تشنگی ہے اندر


میں خُوش ہوں لیکن بجھا بجھا ہوں

دَرِ نبی سے پلٹ رہا ہُوں


دوبارہ جانے کی آرزُو ہے

کہ خُود کو پانے کی آرزُو ہے


جو حج پہ احرام باندھتے ہیں

پہن کے آنے کی آرزو ہے


جو بُوئے آقا کی دے گواہی

اُسی کفن میں مَروں الٰہی


تڑپ ہُوں فریاد ہُوں دُعا ہوں

نبیؐ نبیؐ پھر پکارتا ہُوں


مجھے مِرے ذہن نے ڈبویا

بہت ہی کم مائیگی پہ رویا


تاثّر اپنا بیان کر کے

سخنوری کا بھرم بھی کھویا


نہ لاج رکھّی قلم کی مَیں نے

کیا تھا محسوس جو بھی مَیں نے


کہاں مظفر وُہ لِکھ سکا ہُوں

نبیؐ نبیؐ پھر پکارتا ہوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

راہواں دے وچ پھل برساؤ آقا میرے آرئے نے

حضور اپنے کرم کے حصار میں رکھنا

ساقی کوثر ترا ہے جام و مینا نور کا

وہ شان پائی کے نبیوں میں انتخاب ہوئے

خیرِ کثیر خیر الامم والیِ حرم

اسم تیرا ہے محمّد تو تری ذات کریم

شہرِ طیبہ کی ہوا درکار ہے

اب کیسے کہیں کیا کہیں اور کیا نظر آیا

منگتے شہ حرم کے بسوئے حرم چلے

واقفِ رازِ ابتدا صلِ علیٰ مُحمَّدٍ