اسم تیرا ہے محمّد تو تری ذات کریم

اسم تیرا ہے محمّد تو تری ذات کریم

ذکر عالی ہے ترا اور ترا خلق عظیم


تو وہ داتا کہ عدو تیرے کرم سے نادم

اے کہ تو رفقِ مجسّم اے رؤف اور رحیم


قافلے یوں تری یادوں کے سحر دم اُترے

جیسے گلشن میں چلی آئے کہیں بادِ نسیم


تیرے ہوتے ہوئے کیوں کر نہ معطر ہو حیات

جب ترا ذکر معنبر ہے تری یاد شمیم


بس یہی بات رہی لطف فشاں، خیر فزا

جرم جتنے بھی ہوں رہتا ہے ترا فضل عمیم


تیرے آنے ہی پہ موقوف ہے گھر کی رونق

تیری ہی چاپ کو ترسے ہے مرے دل کا حریمِ


اپنے نوری کو عطا کیجیے دیدار کا جام

خوانِ انعام کا ہے یہ بھی نمک خوار قدیم

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

صد شکر کہ سرکار کا میں مدح سرا ہوں

اللہ رے تیرے در و دیوار,مدینہ

بیکسوں سے ہے جنہیں پیار وہی آئے ہیں

تجلیات کا گلزار مسجدِ نبوی

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

دل میں مرے نہاں یہ خلش عمر بھر کی ہے

گو ہوں یکے از نغمہ سرایانِ محمد ﷺ

شافعِؐ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

جانم فدائے حیدری یا علیؓ علیؓ علیؓ

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے