کہکشاؤں کے سحر زیرِ قدم رہتے ہیں

کہکشاؤں کے سحر زیرِ قدم رہتے ہیں

زاویے فکر کے جب سوئے حرم رہتے ہیں


شہرِ خوشبو میں ہو دھڑکن پہ ادب کا پہرہ

سانس آہستہ، یہاں میرِ امم رہتے ہیں


ان کے دربار سے لوٹے ہیں تو حالت یہ ہے

ہجر کی گود میں با دیدۂ نم رہتے ہیں


طائرِ فکر کا محور ہے فضائے مدحت

خدمتِ نعت میں قرطاس و قلم رہتے ہیں


جلوۂ شاہِ دو عالم سے مہکتا ہے ارم

بہرِ دیدار، طلب گارِ ارم رہتے ہیں


نور والوں سے ہو نسبت تو اندھیرے کیسے

ان کو ہر موڑ پہ صد نور بہم رہتے ہیں


کربلا والوں کا غم دل میں بسا ہے جب سے

دور اشفاق سے سب رنج و الم رہتے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

حالِ دل کس کو سنائیں

سنا نبی سے جو قرآن کے ترانے کو

چلو عاصیو غمزدو سب مدینے

محمد کی محفل سجاتے رہیں گے

دربارِ نبیؐ سایہء رحمت بھی رِدا بھی

زندگانی میں مدینے کا سفر اچھا لگا

مُصطفےٰ مُجتبےٰ محمدؐ ہیں

ذکرِ سرکار سے ہے فضا مطمئن

جمال سب سے الگ ہے جلال سب سے الگ

خدا کے دلارے خدائی کے پیارے