کیف و لطف و سرور کی باتیں

کیف و لطف و سرور کی باتیں

واہ میرے حضور کی باتیں


پھول کلیوں کی حسن آرائی

جیسے ان کے ظہور کی باتیں


حسن، نزہت، جمال ، رعنائی

اُن کی رنگت کی نور کی باتیں


چشمِ ما زاغ دیکھتے ہی رہے

وہ جو کرتے تھے طُور کی باتیں


اُن کے قدموں کی فیض ارزانی

اوجِ فہم و شعور کی باتیں


اُن کے تلووں کو چومنے والے

ذرّے کرتے ہیں طور کی باتیں


اب تصوّر میں روز ہوتی ہیں

وہ جو لگتی تھیں دُور کی باتیں


دل کے تاروں پہ گنگناؤں میں

پھر دلِ ناصبور کی باتیں


کاش نوری کو لطف بار رکھیں

اُن کے نطقِ طہور کی باتیں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

میری رُوحِ رواں مدینہ ہے

ایہہ کون آیا جدِھے آیاں

جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

اے کریم! نادم ہوں شرم ہے نگاہو ں میں

وہی سب سے میٹھی زبان ہے جو مرے نبی ؐ کی ثنا کرے

خالی رہوے نہ دامن مولا کِسے گدا دا

احمد بے میم حضور نیں

وحشی کو انسان بنایا میرے کملی والے نے

وصال کی جو دلوں میں رہتی ہیں غاریں روشن

شہِ کونین آئے دور جہاں کا مُدّعا بن کر