کرم کریم کا اچھے سمے میں رکھتا ہے
غلام زاد کو پیہم مزے میں رکھتا ہے
پکارتے ہیں ترے خواب نیند کی جانب
وفورِ عشق مجھے رتجگے میں رکھتا ہے
سوائے نعت کوئی بات سوجھتی ہی نہیں
جمالِ شاہ اسی دائرے میں رکھتا ہے
درونِ قلب مہکتا ہے مثلِ مشکِ ختن
خیالِ شاہ بڑے فائدے میں رکھتا ہے
خیال ورد کے لمحے رہا مواجہ کا
درودِ پاک مجھے رابطے میں رکھتا ہے
اسے شہانِ جہاں پر ہے فوقیت حاصل
جو ان کا طوقِ غلامی گلے میں رکھتا ہے
وہی بناتا ہے اشفاق لفظ کو مدحت
جو میرے حرف کو اک ضابطے میں رکھتا ہے
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت