خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا
رات نے گویا مجھے نورِ سحر میں رکھا
منزلِ قربِ شہنشاہِ مدینہ کے لئے
خود کو بچپن سے ہی سامانِ سفر میں رکھا
دعویِ ہمسرئ عرش نہیں ہے لیکن
میں نے بھی دل کو تری راھگزر میں رکھا
تلخئِ حشر میں خالق نے بھی احساسِ سکوں
ساقئِ چشمہِ کوثر کی نظر میں رکھا
نسلِ آدم کو ملاقات کے گُر آنے تک
رب نے بھی یار کو تصویرِ بشر میں رکھا
ہاتھ اٹھانے کا کہا کھول کے دہلیزِ عطا
اپنے منگتے کو اگر میں نہ مگر میں رکھا
حسنِ جنت کو بھی ہے اُس کی زیارت کی طلب
جانے اللّٰہ نے کیا یار کے در میں رکھا
شاعر کا نام :- حافظ محمد ابوبکر تبسمؔ
کتاب کا نام :- حسن الکلام فی مدح خیر الانامؐ