کس نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیاء کون ہے روشنی کا جو مینار ہے
کون ہوتا مِرے مصطفیٰ کے سوا ، ایک ہی تو خدائی میں شہکار ہے
کون ہے وجہ ِ تسکینِ قلبِ حزیں ، کون ہے مرہم ِ زخمِ انسانیت
روزِ محشر ہے کس کا سہارا ہمیں ، کون ہے عاصیوں کا جو غم خوار ہے
نعت گوئی ہو یا نعت خوانی مگر شرطِ اوّل ہے سوزِ جگر چشمِ تر
یہ میسر نہیں ہے کسی کو اگر ، بوئے گل بیچتا ہے ، وہ عطاّر ہے
اور کچھ ان سے پہلے نہ تم مانگنا ، سوزِ دل مانگنا چشمِ نم مانگنا
یہ اگر مل گئے پھر وہ خود مل گئے ، ان کے ملنے کا یہ ایک معیار ہے
کس کے نقشِ قدم کی ہیں مہتابیاں ، روشنی روشنی کہکشاں کہکشاں
رُوح مشکِ ختن ، کس کی بوئے دہن ، سیرِ فصلِ چمن کس کی گفتار ہے
کون ہے سارے عالم میں ایسا حسیں ، جس کے در پہ حسینوں کی خم ہے جبیں
روکشِ خلد جس کی گلی کے مکیں ، اور درباں فرشتوں کا سردار ہے
کس نے کاٹا ہے نفرت کی زنجیر کو ، کس نے توڑا تعصّب کی شمشیر کو
کس نے بدلا غلامی کی تقدیر کو ، کون انسانیت کا نگہدار ہے
وہ جو اُمّی بھی علّامِ اسرار بھی، ہاشمی ، سیّدی اور ابرار بھی
اور تسکینِ قلب، گنہ گار بھی ، حشر میں عاصیوں کا مددگار ہے
تو ادیبؔ اور مداحئ مصطفیٰ کس قدر اوج پر ہے تِرا مرتبہ
جس کی مدحت فرشتے کریں اور ' خدا ' اُن میں شامل یہ تجھ سا گنہ گار ہے
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب