کچھ اور خیالوں میں لایا ہی نہیں جاتا

کچھ اور خیالوں میں لایا ہی نہیں جاتا

ہاں جا کے مدینے سے آیا ہی نہیں جاتا


گھر واپس جانے کا نہ حکم ہمیں دینا

سچ یہ ہے کہ اس در سے جایا ہی نہیں جاتا


کھاتا ہے جہاں سارا سرکار کے لنگر کو

ہاں اس کے سوا کچھ بھی کھایا ہی نہیں جاتا


اشکوں کی زباں سے ہی غم لو گ سناتے ہیں

سر کار کی چو کھٹ پر بولا ہی نہیں جاتا


سرکار کی اے حاکم اِک نعت ہی کافی ہے

اب گیت کوئی ہم سے گایا ہی نہیں جاتا

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

ہو جاتی ہے مدحت بھی شہِ کون و مکاں کی

درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

آو کہ ذکر حسن شہ بحر و بر کریں

دیر جتنی اشکِ خوں سے آنکھ تر ہونے میں ہے

نبی محتشم ! تیرا گدائے بے نوا کشفی

ممنون ہیں سب انسان ترے

جس دل میں غمِ احمدِؐ مختار نہ ہوگا

ذکر دی بزم سجاون دی عادت پئے گئی اے

شہرِ آقاؐ کو میں روانہ ہوں

کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے