ممنون ہیں سب انسان ترے

ممنون ہیں سب انسان ترے

کملی والے قربان ترے


پھرتا تھا ازل کی گلیوں میں

موجود و عدم دالان ترے


خاموشی بھی الہام بکف

احکام خدا فرمان ترے


صورت بھی حسیں سیرت بھی حسیں

نفسِ مضموں عنوان ترے


جو قتل تجھے کرنے آئے

لے کر نکلے گلدان ترے


میں تیرا عاشق کہلایا

جھومر میرا احسان ترے


رحلِ دل پر قرآں کی طرح

ظاہر باطن جُزدان ترے


چاند اور سورج شمعیں تیری

بھوک اور فاقے پکوان ترے


تُو خالی بھی تھا بھرا ہوا

دشمن بھی ہوئے مہمان ترے


کیوں فقر پہ فخر نہ تو کرتا

تاجوں والے دربان ترے


سُن نعت مظفر جیسوں سے

کہلائیں یہ خوش اِلحان ترے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

رسیا درود کے متمنی دعا کے ہیں

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا

ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا

ذرّے سے بھی کم تر ہوں مگر کتنا بڑا ہوں

زمیں بھی تیریؐ فلک بھی حضورؐ تیراؐ ہے

جب آنکھ عشق میں نَم ہو تو نعت ہوتی ہے

درود ان پر سلام ان پریہ ورد رائج ہے دوجہاں میں

کیے کون و مکاں روشن تری تنویر کے قرباں

مدینے کے والی مدینے بلا لو یہ پیغام لے جا صبا جاتے جاتے

چمکا ہے شبِ تارِ تخیل میں نیا چاند