لبیک اللّٰھم لبیک

لبیک اللّٰھم لبیک

حاضر ہیں حاضر ہیں حاضر ہیں ہم


لائق حمد و ثنا تیرے سوا کوئی نہیں

سننے والا عاصیوں کی التجا کوئی نہیں


ڈوبتوں کو جو تِرا دے ناخدا کوئی نہیں

جھولیاں بھر دے جو سن کر مدعا کوئی نہیں


ہاں سوا تیرے سوا تیرے سوا کوئی نہیں

دیکھ میرا دامن تر دیکھ میری چشم نم


حاضر ہیں حاضر ہیں حاضر ہیں ہم

یہ شرف کہ آدمی اللہ کے گھر جائے گا


یہ شرف کہ پاک دامانوں کا رتبہ پائے گا

یہ شرف کہ ہر خطا رب درگذر فرمائے گا


یہ شرف کہ داغ دامن سے ہر اک دُھل جائے گا

اس شرف پر جان بھی قربان کر دیں تو ہے کم


حاضر ہیں حاضر ہیں حاضر ہیں ہم

عاصی و مسکین و مجرم ہو رہے ہیں محترم


یہ تیری شان ِ کریمی یہ تیرا لطف و کرم

بڑھ رہے ہیں تیری جانب تیرے بندوں کے قدم


مدعا تیری رضا تیری خوشی ترا کرم

ان تمناؤں کا رکھنا اے خداوندا بھرم


حاضر ہیں حاضر ہیں حاضر ہیں ہم

یہ سفر حج کا سفر بگڑے بناتا ہے نصیب


یہ سفر مخلوق کو خالق سے کرتا ہے قریب

یہ سفر یعنی مریضوں سے ملاقاتِ طبیب


ہو مقدر سے اگر عرفات کا میداں نصیب

یہ دُعا مانگو کھڑے ہو کر وہاں پر اے ادیبؔ


ہو غلامِ مصطفیٰ میں نام اپنا بھی رقم

حاضر ہیں حاضر ہیں حاضر ہیں ہم

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

کیوں نہ دل میں وقعت ہو اس قدر مدینے کی

ڈب دے کدی نئیں جیہڑے نے تارے حضور دے

سارے ناموں سے کنارا کیجئے

اگر ہے عشق کا دعوٰی تو خوفِ امتحاں کیسا

ہم صبح و شام کرتے ہیں مدحت رسول کی

رُوئے پُر نور ہے والضحیٰ آپؐ کا

بتایا آپؐ کے ہر مقتدی رسول نے ہے

ہوئی مجھ پہ رحمت ہمیشہ ہمیشہ

خاکِ درِ حضرت جو مرے رُخ پہ ملی ہے

کیا ہے ہجر کے احساس نے اداس مجھے